آمدنی کے حلال و حرام ذرائع اور ان کے اثرات

آمدنی کے حلال و حرام ذرائع
اور ان کے اثرات
محمد فرقان فلاحی
          اس کائنات میں اللہ رب العزت نے جتنی بھی مخلوقات پیدا فرمائی ہیں ان کی ضروریات زندگی کی فراہمی کا ذمہ بھی اپنے اوپر لے رکھا ہے، جیسا کہ ارشاد الٰہی ہے:‘‘وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللَّهِ رِزْقُهَا’’(ہود:۶)کہ اس نے روئے زمین پر موجود ہر جاندار مخلوق کے رزق کی ذمہ داری ہم نے لے رکھی ہے ،پھر ان تمام مخلوقات میں سے حضرت انسان کو دنیا میںاپنی خلافت و نیابت کے لیے منتخب فرماکر اسے کچھ خصوصی امتیازات سے نوازا کہ وہ دیگر مخلوقات سے ممتاز رہےاور اپنے منصب خلافت کے فرائض کو بہتر انداز میں انجام دے سکے، طریقۂ زندگی کو اعلیٰ معیار پر گزارنے کے لئے اسے شریعت اسلامیہ کی شکل میں ایک جامع نظام ِ حیات عطا فرمایا اور اس کی عملی مشق کےممکن ہونے کو بتانے کے لئے نبی خاتم المرسلین محمد ﷺ کو مبعوث فرمایا ،جنہوں نے انسانیت کو زندگی کے ہر شعبہ میں ایک ایسا آسان اور ممکن العمل طریقہ سکھایا کہ رہتی دنیا تک اس پر عمل کرنے والا ناکامی و خسارہ سے محفوظ رہے گا، من جملہ ان تعلیمات کے ایک یہ بھی ہے کہ آپ ﷺ نے انسانیت کو یہ بھی سکھایا کہ مال و دولت کو حاصل کرنے کا اور انہیں خرچ کرنے کا درست طریقہ کون سا ہے اور کون سا طریقہ نا درست ہے۔
          بالخصوص انسانی ضروریات کے پیش نظر آمدنی کے حصول کے مختلف طریقوں کو واضح فرما کر آپ ﷺ نے رہنمائی فرمائی کہ انسان کے ذرائع آمدنی کیا ہونے چاہئے، کہ رضاء الٰہی کے ساتھ ساتھ ضروریات بھی پوری ہو جائیں اور حلال کو اختیار کرتے ہوئے ،حرام و مشتبہ مال سے بچنا اور احتراز کرنا بھی ہوجائے۔
          اس بات میں کوئی شک نہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی تمام تعلیمات کا منبع و سرچشمہ وحی الٰہی ہی تھا ،جس کی جانب:‘‘وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى’’(النجم:۳،۴)کے ذریعہ اشارہ کیا گیا ہے؛چنانچہ خود اللہ رب العزت نے اپنے بابرکت کلام میں حلال آمدنی کے حصول کی تعلیم دی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:ـ‘‘يَا أَيُّهَا النَّاسُ كُلُوا مِمَّا فِي الْأَرْضِ حَلَالًا طَيِّبًا وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ’’(البقرۃ:۱۶۸) جس میں پوری انسانیت کو حلال کے اختیار کرنے اور حرام سے بچنے کی تلقین کرنے کے ساتھ ساتھ مال و دولت کے حصول میں شیطان کے نقش قدم پر چلنے سے روکا گیا ہے، اسی طرح ایک اور جگہ ارشاد ہے:‘‘فَكُلُوا مِمَّا غَنِمْتُمْ حَلَالًا طَيِّبًا وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ’’(الانعام:۶۹)جس میں خوف الٰہی کو دل میں بسا کر حلال و پاکیزہ ذرائع آمدنی کےاختیار کرنے کا حکم دیا گیا ، نیز اپنی مغفرت و رحمت کی صفات کا تذکرہ فرما کر اس جانب بھی اشارہ فرمادیا کہ جو لوگ اب تک اپنی جہالت و غفلت کی وجہ سے یا احکام شریعت سے ناواقفیت کی بناء پر حرام آمدنی کے راستوں پر چل پڑے تھے وہ اب اس سے باز آجائیں اور توبہ کرلیں،نیز :‘‘ فَكُلُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ حَلَالًا طَيِّبًا وَاشْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ’’(النحل:۱۱۴) میں اکل حلال کا حکم دے کر اللہ تعالیٰ کی مختلف نعمتوں پر شکریہ ادا کرنے کا حکم دیا ، اور اپنے اس حکم میں تاکید پیدا کرنے کی غرض سے اس عبادت کا بھی ذکر کر دیا جو انسان اپنے رب کے سوا کسی اور کی نہیں کرتا۔
          پھر جہاں کسب حلال کی تلقین کی گئی وہیں اسلام نےحرام کمائی سے بچنے کی بھی سختی سے تاکید کی ہے، اور اس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ حرام کمائی کی وجہ سے انسان کی طبیعت میں بہت سے مفاسد پیدا ہوجاتے ہیں، احادیث نبویہ کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ حرام کمائی دل کی سختی کا سبب بنتی ہے جو دل سے ایمان کا نور ختم کر دیتی ہے، اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کو دعوت دیتی ہے، دعاؤں کی قبولیت کے لئے مانع بنتی ہے ، بلکہ دیکھا جائے تو حرام آمدنی کے نقصانات صرف انفرادی نہیں رہتے بلکہ یہ انسان کو ایسے کاموں پر ابھارتی ہے جن کا نقصان پھر اجتماعی ہوتا ہے کہ اس کی وجہ سے چوری و ڈاکہ زنی ،لوٹ کھسوٹ، رشوت ستانی و سود خوری ، دھوکہ دہی و ذخیرہ اندوزی ، ناپ تول میں کمی زیادتی، یتیموں کے اموال کو ہڑپ کر جانا، آپس میں ناجائز طریقوں سے سودے بازی کرکے ناحق کسی کا حق دبا لینا اور ایسے نہ جانے کتنے گھناؤنے جرائم معاشرہ میں پیدا ہو کر انسانیت کے لئے ایسے ناسور بن جاتے ہیں کہ ا ن کا علاج مشکل ہو جاتا ہے، اور اسی حرام آمدنی کا اثر یہ بھی ہوتا ہے کہ انسان میں دولت کی حرص اور مال کی طمع اس درجہ پہونچ جاتی ہے کہ وہ آخرت سے غافل ہو کر دنیوی مفادات کے خاطر آنکھیں بند کرکے مال کے حصول میں لگ جاتا ہے، اسی کو آپ ﷺ نے اس طرح ذکر کیا ہے :‘‘یأتی علی الناس زمان لا یبالی المرء ما  أخذ منہ،أ من الحلال أم من الحرام؟’’ (صحیح البخاری عن أبی ہریرہ، کتاب البیوع،باب من لم یبال من حیث کسب المال، حدیث نمبر:۲۰۵۹)
          اس سے زیادہ جرأت کی بات یہ ہے کہ دولت کمانے کی فکر میں انسان خود حلال کو حرام اور حرام کو حلال کرنے پر اتر آتا ہے ،قرآن مجید میں اس جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے:‘‘قُلْ أَرَأَيْتُمْ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ لَكُمْ مِنْ رِزْقٍ فَجَعَلْتُمْ مِنْهُ حَرَامًا وَحَلَالًا قُلْ آللَّهُ أَذِنَ لَكُمْ أَمْ عَلَى اللَّهِ تَفْتَرُونَ’’(یونس:۵۹) کہ تمہارا حلال کو حرام اور حرام کو حلال قرار دے دینا اللہ تعالیٰ کی اجازت کی وجہ سے ہے یا یونہی تم اللہ تعالیٰ پر بہتان باندھتے ہو؟ اسی کو حضرت ابن عباس ؓ اس طرح ذکر فرماتے ہیں:‘‘ كان أهل الجاهلية يأكلون أشياء ويتركون أشياء تقذرا، فبعث الله تعالى نبيه صلى الله عليه وسلم، وأنزل كتابه وأحل حلاله  وحرم حرامه، فما أحل  فهو حلال وما حرم فهو حرام، وما سكت عنه فهو عفو " وتلا: قل لا أجد فيما أوحي إلي محرما’’۔ (سنن ابی داود ،کتاب الاطعمۃ، باب ما لم یذکر تحریمہ،حدیث نمبر:۳۹۰۰)
          الغرض قرآن و حدیث میں بارہا کسب حلال کی ترغیب دی گئی اور کسب حرام سے شدت سے روکا گیا اوراس کے نقصانات شمار کروائے گئے۔
          اگر ہم انسانی معاشرہ کا جائزہ لیں تو یہ سوال خود بخود ذہن میں پیدا ہوتا ہے کہ جب شریعت اسلامیہ نے اتنی سختی سے کسب حرام سے روکا ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ بالعموم انسان اور بالخصوص کلمہ گو مسلمان آمدنی کے حرام ذرائع سے بچنے میں احتیاط نہیں کرتا اور حرام کے سیلاب میں بہہ جاتا ہے؟اس سلسلہ میں سنجیدگی سے غور کرنے پر جو باتیں سامنے آتی ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ کسب حرام کا سب سے بنیادی سبب انسان کے دل سے اللہ تعالیٰ کے خوف اور ڈر کا نکل جانااوراس کا فطری حیاء سے عاری ہو جانا ہے؛کیونکہ خوف الٰہی اور اللہ تعالیٰ کی ذات کا استحضار ہی ایک ایسی کیفیت ہے جو انسان کو بہت سارے گناہوں کے ارتکاب سے روک دیتی ہے،جیسا کہ حدیث نبوی میں حیاء کی ترغیب دلاتے ہوئے آپ ﷺ نےحیاء کی تعریف ان الفاظ میں فرمائی: ‘‘۔۔۔ولكن الاستحياء من الله حق الحياء أن تحفظ الرأس وما وعى، والبطن وما حوى، ولتذكر الموت والبلى۔۔۔’’(سنن الترمذی عن ابن مسعود ، ابواب صفۃ القیامۃو الرقائق و الورع،حدیث نمبر:۲۴۵۸) کہ حیاء کا بنیادی تقاضہ یہ ہے کہ انسان اپنے باطن کا اور اس میں سمانے والی خوبی یا خامی کا دھیان رکھے ، اپنا پیٹ بھرنے کے لئے حاصل کی جانے والی آمدنی کا خیال رکھےاور ذرا موت کو اور اس کے بعد جسم کے مٹی میں مل جانے کو ہرگز نہ بھولے، کہ یہ کیفیت انسان کو گناہوں سے روکنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے،اسی طرح حضرت ابو مسعود البدریؓ نے آپ ﷺ کا یہ ارشاد نقل فرمایا ہے:‘‘ إن مما أدرك الناس من كلام النبوة الأولى: إذا لم تستحي فأصنع ماشئت’’ (سنن ابن ماجہ، کتاب الزھد، باب الحیاء، حدیث نمبر:۴۱۸۳) کہ جب تم حیاء کی چادر اتار پھینکو تو پھر جو دل چاہے کرلو، عفیفۂ امت حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی تھیں: ‘‘انکم لتغفلون عن أفضل العبادۃ:الورع’’  ،کہ خشیت الٰہی جیسی عظیم عبادت سے لوگ غفلت برتتے ہیں، جبکہ حضرت عمر فاروق ؓ فرماتے تھے:‘‘ کنا ندع تسعۃ أعشار الحلال مخافۃ أن نقع فی الحرام’’ ، کہ حرام کی حدود میں داخل نہ ہوجائیں اس خوف سے ہم حلال کے بھی اکثر حصہ کو چھوڑ دیاکرتے تھے، مشہور محدث عبد اللہ بن المبارک ؒ فرماتے ہیں کہ میں نے ملک شام میں کسی سے کچھ لکھنے کے لئے قلم لیا اور وہ میرے پاس ہی رہ گیا، واپسی کے سفر میں مقام ’’مرو‘‘ پہونچنے کےبعد مجھے احساس ہوا کہ وہ قلم تو میرے پاس ہی ہے ؛چنانچہ میں دوباہ ملک شام لوٹا اور جس کا قلم تھا اسے واپس لوٹایا۔(دیکھئے:سیر اعلام النبلاء:۸؍۳۹۵ )
            کسب حرام کا دوسرا بنیادی سبب یہ ہے کہ انسان کم وقت میں زیادہ سے زیادہ دولت کے حصول کی خواہش میں حلال و حرام کی تمیز کو بھلا بیٹھتا ہے اور ہر ممکن طریقہ سے دولت کو جمع کرنے کی کوشش میں پڑ جاتا ہے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ بسا اوقات کسی انسان کے رزق کا تنگ ہونا اللہ تعالیٰ کی جانب سے کچھ حکمت و مصلحت پر مبنی ہوتا ہے ، لیکن انسان اس تنگئ رزق کا علاج یہ سمجھتا ہے کہ وہ حرام کے راستوں پر چل کر زیادہ سے زیادہ مال و دولت اکٹھا کرنے کی کوشش میں جٹ جاتا ہے ؛ حالانکہ وہ اپنی قسمت میں لکھے رزق سے ایک دانہ بھی زیادہ حاصل نہیں کرسکتاہے،حضرت ابن مسعود ؓ آپ ﷺ کا ارشاد نقل فرماتے ہیں:‘‘۔۔۔لا يستبطئن أحد منكم رزقه، إن جبريل عليه السلام ألقى في روعي أن أحدا منكم لن يخرج من الدنيا حتى يستكمل رزقه ،فاتقوا الله أيها الناس و أجملوا في الطلب،فإن استبطأ أحد منكم رزقه فلا يطلبه بمعصية الله؛ فإن الله لا ينال فضله بمعصية’’(المستدرک للحاکم، کتاب البیوع،حدیث نمبر:۲۱۳۶)جس میں اس بات کی تعلیم دی گئی ہے کہ رزق کی تلاش میں انسان کو عمل سے غافل نہیں ہو جانا چاہئے اور ساتھ ہی یہ بھی واضح فرما دیا گیا کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت و برکت کو گناہ گاری کے راستوں سے کبھی حاصل نہیں کیا جاسکتا ہے۔
          قرآن و حدیث میں وارد ان الہامی ہدایات کا تقاضہ یہی ہے کہ انسان اس بات کو فراموش نہ کرے کہ دنیوی زندگی چند روزہ ہے ، پھر اسے رب العالمین کے حضور پہونچ کر اپنے ہر ایک کرتوت کا حساب دینا ہے ، جیسا کہ حدیث میں بھی یہ حقیقت بیان فرمادی گئی ہے، حضرت ابو برزہ اسلمی ؓ نے آپ ﷺ سے نقل کیا ہے : ‘‘لا تزول قدما عبد يوم القيامة حتى يسئل عن عمره فيم أفناه، وعن علمه فيم فعل، وعن ماله من أين اكتسبه وفيم أنفقه، وعن جسمه فيم أبلیٰ’’(سنن الترمذی،ابواب صفۃ القیامۃ والرقائق والورع، حدیث نمبر:۲۴۱۷)کہ قیامت کے دن انسان اپنی جگہ سے اس وقت تک نہیں ہٹ سکے گا جب تک کہ وہ اس کا جواب نہ دے کہ اپنی عمر کو کہاںکھپایا تھا، علم پر کتنا عمل کیا تھا، مال کہاں سے جمع کیا تھا اور کہاں خرچ کیا تھا اورجسمانی قوتوں کو کہاں صرف کیا تھا--اب خود فیصلہ کیا جاسکتاہے کہ مال و دولت کی حرص و ہوس کے جذبہ میں غرق ہو کر دنیاوی زندگی کو کامیاب بنالینا عقلمندی ہے یا یہ کہ آخرت کی زندگی کی کامیابی کے لئے تقوی و خشیت الٰہی کومد نظر رکھتے ہوئے مال و دولت جمع کرنے میں بھلائی ہے۔
          کسب حرام کا ایک اور سبب انسانی خمیر میں موجود حرص اور لالچ کا ہونا اور اس کا قناعت پسندی و کفایت شعاری سے کنارہ کشی اختیار کرنا بھی ہے، جبکہ اسلامی تعلیمات کے مطابق ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ یہ عقیدہ رکھے کہ جس طرح ہر انسان کی موت متعین ہے اسی طرح اس کا رزق بھی متعین ہے ، حضور اقدس ﷺ اس سلسلہ میں ارشاد فرماتے ہیں:‘‘ إن الله قسم بينكم أخلاقكم كما قسم بينكم أرزاقكم ،وإن الله عز و جل يعطي الدنيا من يحب ومن لا يحب ،ولا يعطي الدين إلا لمن أحب، فمن أعطاه الله الدين فقد أحبه۔۔۔ ولا يكسب عبد مالا من حرام فينفق منه فيبارك له فيه ،ولا يتصدق به فيقبل منه، ولا يترك خلف ظهره إلا كان زاده إلى النار۔۔۔’’(مسند احمد عن ابن مسعود، حدیث نمبر:۳۶۷۲) کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے درمیان ان کے اخلاق و عادات تقسیم فرما ئے ہیں اسی طرح ان کے رزق کو بھی تقسیم فرما دیا ہے ، اور دنیا تو اللہ تعالیٰ اپنے پسندیدہ بندوں کو بھی دیتے ہیں اور نافرمان بندوں کو بھی دیتے ہیں لیکن اپنا دین اسے ہی دیتے ہیں جس سے محبت فرماتے ہیں ، اسی حدیث میں آپ ﷺ ارشاد فرماتے ہیں کہ جو مال حرام ذرائع سے کمایا جائے اس میں کبھی برکت نہیں ہوتی ،اس میں سے کیا جانے والا صدقہ کبھی قبول نہیں ہوتا اور اگر وہ مال چھوڑ کر کوئی مر جائے تو وہی مال اس کے جہنم تک پہونچنے کا ذریعہ بن جاتا ہے ۔
          لہٰذا سوچنا چاہئے کہ جو مال حرام کمائی سے حاصل ہوگا وہ نہ صرف یہ کہ دنیا میں بے برکتی کا سبب ہوگا بلکہ آخرت میں یہی مال انسان کے لئے جہنم میں پہونچنے کا سبب بن جائے گا۔
          کسب حرام جیسے بڑے گناہ میں ملوّث ہونے کا ایک عام سبب یہ بھی ہے کہ انسان اس گناہ کے نقصانات اور اس کی تباہیوں سے غافل ہوتا ہے ، اور آمدنی کے سلسلہ میں لا پرواہی کا شکار کچھ اس طرح سے ہوتا ہے کہ اسے کوئی فکر نہیں رہتی کہ مال کہاں سے آرہا ہے اور کس طریقہ سے حاصل کیا جا رہا ہے ، جب کہ صحابہ کرام کا مزاج کچھ اور تھا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا اپنے والد محترم حضرت ابو بکر صدیق ؓ کا واقعہ ذکر فرماتی ہیں کہ ایک بار حضرت ابو بکر ؓ کے کسی غلام نے آپ کی خدمت میں کوئی کھانے کی چیز پیش کی جسے آپ نے تناول فرمالیا ، پھر اس غلام نے کہا کہ آپ کو پتہ بھی تھا کہ یہ کیا چیز تھی اور میں نےاسے کہاں سے حاصل کیا تھا؟ آپ ؓ نے فرمایا کہ تم خود بتا دو کہ کہاں سے لائے تھے، اس نے کہا کہ میں زمانۂ جاہلیت میں ستاروں کی چال دیکھ کرایک شخص کو اس کی تقدیر کی باتیں بتائی تھیں جب کہ حقیقت میں مجھے کچھ نہیں آتا تھابلکہ میں نے اسے دھوکہ دیا تھا، حال ہی میں وہ شخص مجھے ملا اور اس نے اجرت کے طور پر وہی چیز مجھے دی جسے آپ نے ابھی کھایا ہے ، حضرت ابوبکر ؓ کا یہ سننا تھا کہ آپ نے فوراً اپنی انگلیاں حلق میں ڈالی اور جو کچھ کھایا تھا پورا واپس نکا ل دیا، (دیکھئے:صحیح البخاری عن عائشۃ رضی اللہ عنھا،کتاب فضائل الصحابۃ، باب ایام الجاہلیۃ،حدیث نمبر:۳۶۲۹)___گویا یہ تقوی اور خشیت الٰہی کا اعلیٰ معیار تھا اوراحکام شریعت کے استحضار کی ایک مثال تھی کہ خود کو حرام سے بچانے کی اس قدر فکر کی جاتی تھی۔
          اس سلسلہ میں یہ بیان کرنا بھی مناسب محسوس ہوتا ہے کہ حرام آمدنی کے مفاسد و نقصانات بھی کچھ کم نہیں ہیں؛ چنانچہ دل میں تاریکی کا پیدا ہو جانا ، اطاعت الٰہی کے لئے اعضاء و جوارح کا سست ہو جانا ، عمر میںسے اور رزق میں سے برکت کا ختم ہوجانا یہ سب حرام آمدنی کے استعمال کی نحوستیں ہیں،اور ان سب سے بڑھ کر یہ کہ حرام آمدنی انسان کو جہنم میں پہونچا کر ہی دم لیتی ہے، آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:‘‘۔۔۔إنه لا يربو لحم نبت من سحت إلا كانت النار أولى به’’ (سنن الترمذی عن کعب بن عجرۃ، ابواب السفر، باب ما ذکر فی فضل الصلاۃ، حدیث نمبر:۶۱۴)کہ جس بدن کی نشو و نما حرام مال کے ذریعہ سے ہوئی ہو وہ اس بات کا مستحق ہے کہ اسے جہنم میں ڈال دیا جائے،اس حدیث میں غور کریں تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ حرام کمائی کےاستعمال کرنے والے شخص کا جنت سے اور اہلِ جنت سے کوئی رشتہ باقی نہیں رہتا کہ اسے تو جہنم میں ہی جانا ہے۔
          حرام آمدنی کا دوسرا نقصان یہ ہے کہ وہ اللہ رب العزت کا غضب اور اس کی ناراضگی کا سبب بنتا ہے ، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسان جہنم کا مستحق ہو جاتا ہے ، حضرت ابو امامہ الحارثیؓ نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا:‘‘من اقتطع حق امرئ مسلم بيمينه، فقد أوجب الله له النار وحرم عليه الجنة’’ (کتاب الایمان، باب وعيد من اقتطع حق مسلم بيمين فاجرة بالنار،حدیث نمبر:۲۱۸)کہ جس شخص نے جھوٹی قسمیں کھا کر اپنے کسی مسلمان بھائی کے جائز حق کو ہڑپ کر لیا تو اللہ تعالیٰ اسے جہنم میں دھکیل کر اس کے لئے جنت کے داخلہ کو حرام کر دیں گے، اسی طرح حضرت ابو ہریرہؓ نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا:‘‘اليمين الكاذبة منفقة للسلعة ممحقة للكسب’’ (مسند احمد، حدیث نمبر:۷۲۰۶) کہ جھوٹی قسمیں سامانِ تجارت کو تیزی سے بیچنے کا سبب تو بنتی ہیں لیکن درپردہ وہ رزق میں بے برکتی کا پیش خیمہ ہوتی ہیں، اس مضمون کی ایک حدیث حضرت ابو ذر غفاری ؓ نے نقل کی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:‘‘ثلاثة لا يكلمهم الله يوم القيامة ولا ينظر إليهم ولا يزكيهم ولهم عذاب أليم ....المسبل والمنان والمنفق سلعته بالحلف الكاذب ’’ (کتاب الایمان، باب بيان غلظ تحریم اسبال الازار و المن بالعطیۃ و تنفیق السلعۃ بالحلف،حدیث نمبر:۳۰۶) کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تین قسم کے لوگوں سے نہ ہی گفتگو فرمائیں گے اور نہ ہی ان پر رحمت و عنایت کی نظر ڈالیں گے، ان میں سے ایک وہ شخص بھی ہوگا جو اپنا سامانِ تجارت جھوٹی قسمیں کھا کھا کر بیچتا ہوگا___آج اگر ہم اپنے معاشرہ پر نگاہ ڈالیں اور ہمارے بازاروں کا جائزہ لیں تو اس بات کا اعتراف کرنے میں کوئی جھجک نہیں ہوگی کہ آمدنی کو حرام بنادینے والی ان سب خرابیوں کی جڑیں کافی مضبوط ہو چکی ہیں، جس کی وجہ سےہمارا معاشرہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا مستحق ہو چکاہے، یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرہ میں بے سکونی و بے اطمینانی، آپسی تعلقا ت اور رشتہ داریوں میںتلخی اورآخرت سے غفلت جیسی باتیں عام ہو چکی ہیں۔
          کسبِ حرام کا ایک اور بڑا نقصان یہ ہے کہ اس کی نحوست کی وجہ سے انسان کی دعائیں قبول نہیں ہوتی ہیں،نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسان دعائیں مانگتا جاتا ہے لیکن وہ دعائیں لوٹا دی جاتی ہیں اور کوئی دعا قبو ل نہیں ہوتی، حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیںکہ ایک بار حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے آپ ﷺسے درخواست کی کہ آپ دعا فرمائیں کہ میں مستجاب الدعواب بن جاؤں، ان کی اس درخواست کے جواب میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:‘‘يا سعد! أطب مطعمك تكن مستجاب الدعوة، والذي نفس محمد بيده!  إن العبد ليقذف اللقمة الحرام في جوفه ما يتقبل منه عمل أربعين يوما، وأيما عبد نبت لحمه من السحت والربا فالنار أولى به’’ (المعجم الاوسط للطبرانی،حدیث نمبر:۶۴۹۵) کہ اے سعد! اپنے کھانے میں حلال روزی کاا ہتمام کیاکرو تمہاری دعائیں قبول ہوتی رہیں گی، ورنہ حرام کمائی کا ایک لقمہ بھی انسان کی چالیس دنوںکے اعما ل کو ضائع کر دیتا ہے، اور جس انسان کی پرورش حرام روزی روٹی سے ہوئی ہو تو جہنم ہی اس کے لئے بہتر ٹھکانہ ہے، اس طرح حضرت ابو ہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:‘‘۔۔۔وإذا خرج بالنفقة الخبيثة فوضع رجله في الغرز فنادى لبيك، ناداه مناد من السماء: لا لبيك ولا سعديك، زادك حرام ونفقتك حرام وحجك غير مبرور’’(المعجم الاوسط للطبرانی،حدیث نمبر:۵۲۲۸) کہ جب انسان حرام ذرائع سے حاصل ہونے والی کمائی سے حج کو جاتا ہے اور لبیک کہتا ہے تو آسمان سے ندا آتی ہےکہ نہ ہی تمہارا استقبال ہے اور نہ تمہارا یہاں آنا تمہارے حق میں برکت و رحمت کا باعث ہے؛ کیونکہ تمہارا سامان سفر ،تمہارا خرچ کی غرض سے لایا ہوا مال ہی حرام آمدنی سے ہے اور جان لو کہ تمہارا یہ حج قبول نہیں ہوا ہے ، یہی حضرت ابو ہریرہ ؓ ایک اور حدیث نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺنے ارشاد فرمایا:‘‘أيها الناس! إن الله طيب لا يقبل إلا طيبا، وإن الله أمر المؤمنين بما أمر به المرسلين فقال : يا أيها الرسل كلوا من الطيبات واعملوا صالحا إنى بما تعملون عليم، وقال:يا أيها الذين آمنوا كلوا من طيبات ما رزقناكم،ثم ذكر الرجل يطيل السفر أشعث أغبر يمد يديه إلى السماء يا رب يا رب ،ومطعمه حرام ومشربه حرام وملبسه حرام وغذى بالحرام فأنىٰ يستجاب لذلك’’(صحیح مسلم، کتاب الزکاۃ، باب قبول الصدقۃ من الکسب الطیب،حدیث نمبر:۲۳۹۳) کہ اے لوگو! اللہ تعالیٰ کی ذات نہایت پاک ہے اور وہ پاکیزہ چیزوں ہی کو قبول فرماتے ہیں، اور جس بات کا حکم اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیوں کو دیا ہے اسی بات کاحکم اس نے مومن بندوں کو بھی دیا ہے(یعنی پاکیزہ اور حلال چیزوں کا استعمال کریں)بسا اوقات کوئی بندہ پراگندہ حال اور بہت پریشان ہوتا ہے اور آسمان کی جانب ہاتھ اٹھا اٹھا کر دعائیں کرتا ہوتا ہے جب کہ حال یہ ہوتاہے کہ اس کا کھانا پینا، اس کا پہننا بچھونااور اس کی غذا سب کے سب حرام آمدنی سےہوتے ہیں ،تو اس کی دعائیں کیسے قبول ہو سکتی ہیں؟___ان تمام روایات سے یہ بات بالکل بے غبار ہو جاتی ہے کہ مال حرام میں کچھ ایسی نحوست ہوتی ہے کہ وہ انسان کی دعاؤں کو قبول نہیں ہونے دیتاہے، آج اجتماعی طور پر امت اسلامیہ پر اور انفرادی طور پر ہر مسلمان کی زندگی میں جو حالات ہیں ان پر ایک نگاہ ڈالیں اور سوچیں کہ کیا وجہ ہو سکتی ہے کہ ان بدترین حالات میں جو دعائیں کی جارہی ہیں وہ کیوں قبول نہیں ہو رہی ہیں۔
          خلاصہ کے طور پر اتنی بات کہنا مناسب ہوگا کہ جب اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا فرمایا ہے اور اسے اپنی زندگی گزارنے کے لئے شریعت اسلامیہ کی شکل میں ایک مکمل اور جامع دستور دے دیا ہے ،اور اس میں آمدنی کے حصول کی جائز و ناجائز شکلیں بھی بیان فرما دی ہیں تو پھر انسان کی ذمہ داری ہے کہ وہ خود اپنے آپ کو بھی حرام سے بچائے اور بالخصوص اسلامی معاشرہ کو بھی حرام سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کرے، کہ حرام کمائی اور ناپاک آمدنی سے بہت ممکن ہے کہ انسان دنیا میں ترقیات کی راہ پر چل پڑے اور کامیابی حاصل کرکے دوسروں کی نگاہ میں بڑا بن جائے، لیکن اسے یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ حرام کمائی کی یہ شاہراہ اسے جہنم کے دروازے پر لے جا کر چھوڑے گی اور پھر وہاں سے واپسی کے لئے اس کے پاس کوئی راستہ نہیں ہوگا۔
          نوٹ:   اس تحریر کی تیاری میں‘‘دکتور بدر عبد الحمید ھمیسہ’’ کے انٹرنیٹ پر موجود مضمون ‘‘الکسب الحرام -أسبابہ و أضرارہ’’سے مدد لی گئی ہے۔

Comments

Post a Comment

Popular posts from this blog

ہم سیرت رسول ﷺ کا مطالعہ کیوں کریں؟

دعوتِ دین کے لئے مناسب طریقہ کا انتخاب